شکاگو کبز کو جیتے ہوئے کئی دن گزر گئے مگر نیویارک کی سڑکوں پر اب بھی بیس
بال کے دیوانے ٹیم کی ٹوپی یا شرٹ پہنے جھومتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مجھے بیس بال کا زیادہ پتہ نہیں لیکن ہر طرف جیت کا جشن دیکھ کر میں بھی امریکیوں کی خوشی میں شامل ہوگئی۔ الیکشن ڈائری: 'صنفی تعصب کی امریکہ میں بھی کمی نہیں'
الیکشن ڈائری: پستی کی نئی گہرائیوں کو چھوتی 'فائٹ ٹو فنش'
الیکشن ڈائری:'امریکہ میں ہم جتنی بھی محنت کر لیں مزدور ہی رہیں گے'
جب کبز نے ورلڈ سیریز جیتی تو ایک ریسٹورینٹ میں قریبی میز پر بیٹھے پیٹر
نے دوستوں سے کہا 'ایک سو آٹھ سال بعد ہماری ٹیم ولڈ چیمپیئن بنی ہے۔ اس کا
مطلب ہے کہ قیامت نزدیک ہے، یعنی آٹھ نومبر کو ٹرمپ ہی جیتے گا۔'
میں نے فوراً موقع پاتے ہی ان سے سیاست کی بات چھیڑ دی۔ معلوم ہوا پیٹر ووٹ
ڈالنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن دونوں کو شدید نا
پسند کرتے ہیں۔ وہ بولے 'میں ان دونوں میں سے کسی کی اوول آفس تک پہنچنے میں مدد نہیں کروں گا۔'
پیٹر ایک بڑے مالیاتی ادارے میں اچھی پوسٹ پر کام کرتے ہیں۔ ہلیری سے نفرت
تو ایک طرف مگر محسوس ہوا جیسے وہ ابھی تک اس صدمے سے بھی باہر
نہیں نکلے
کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے اتنے قریب کیسے پہنچ گئے۔ لیکن جشن کی اتنی بڑی رات تھی کہ وہ الیکشن سے متعلق میرے سوالوں سے بہت ہی جلد بور ہو گئے۔ لیکن گذشتہ لگ بھگ ایک ماہ سے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سفر کرتے ہوئے
ایسے بے شمار پڑھے لکھے امریکی نوجوان ملے جو برنی سینڈرز کے ریس سے باہر
ہونے پر غم و غصے کا شکار ہیں اور وہ ووٹ ڈالنا ہی نہیں چاہتے۔ ایسے بیشتر نوجوان امریکہ میں سوشلزم لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جن کی تعبیر ناممکن سی لگتی ہے۔ خیر وہ سرمایہ داری نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کے نزدیک ہلیری کلنٹن وال سٹریٹ کی 'کٹھ پتلی' اور ٹرمپ تو محض 'ایک مذاق' ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی نژاد امریکی شہری المینا نذیر کو یہ فیصلہ کرنے میں
دشواری ہے کہ وہ کس امیدواد کو ووٹ دیں۔ دونوں میں انھیں کئی برائیاں نظر
آتی ہیں۔ امریکی شہری بننے کے بعد یہ ان کا پہلا ووٹ ہے اور وہ کوئی غلطی
نہیں کرنا چاہتیں۔ ایسے ہی ووٹرز کو حاصل کرنے کے لیے ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کوششیں
تیز کر رکھی ہیں۔ ڈیموکریٹس شہریوں کو یہ کہہ کر ڈرا رہے ہیں کہ ووٹ نہ
ڈالنے کا فائدہ ٹرمپ کو ہو گا۔ تو بس پھر نتیجے کا انتظار کیجیے، نتیجہ آنے کو ہے۔